آج کے ڈیوڈ اور گولائتھ
2009-01-10, 4:43
فلسطین کے نو فٹ لمبے جن نما انسان گولائتھ سے سب ڈرتے تھے۔ وہ بار بار آ کر پکارتا: 'ہے کوئی جو میرے سامنے آئے۔' اسرائیل کے لوگ پریشان تھے کہ کریں بھی تو کیا کریں، کس طرح اس جن کا مقابلہ کریں۔
فلسطین کی فوج نے اسرائیل کا گھیراؤ کیا ہوا تھا اور دارز قد خونخوار گولائتھ اپنی پوری ذرہ بکتر پہنے چالیس دن تک ہر روز باہر آتا اور اسرائیلیوں کو للکارتا۔
اسرائیل کا بادشاہ سول پریشان تھا کہ کس طرح اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرے۔ ایک دن ایک چھوٹا سا لڑکا اس کے پاس آیا اور گولائتھ سے لڑنے کی اجازت چاہی۔ اس لڑکے کا نام ڈیوڈ تھا۔ بادشاہ نے پہلے تو صاف انکار کیا لیکن ڈیوڈ کے بے حد اصرار پر اسے لڑائی پر جانے کی اجازت دے دی۔
جب اپنے سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ڈیوڈ جن نما گولائتھ کے سامنے آیا تو اس کے پاس ہتھیاروں میں صرف چند پتھر، غلیل کے لیے دھاگہ اور ایک چھڑی تھی۔ گولائتھ اپنے 'حقیر' سے حریف کو دیکھ کر بھنّا گیا۔ اس نے ڈیوڈ سے کہا کہ 'تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا کہ مجھ سے اس حالت میں لڑنے آ گئے ہو۔ میں تمہیں مار کر تمہاری بوٹیاں پرندوں اور درندوں کو کھلاؤں گا۔'
ڈیوڈ کا جواب تھا کہ 'تم میرے ساتھ لڑنے تلوار، نیزا اور برچھا لے کر آئے ہو لیکن میں تمہارے سامنے خدا کا نام لے کر آیا ہوں۔۔۔ آج ساری دنیا کو پتا چلے گا کہ اسرائیل میں خدا ہے۔'
یہ سن کر گولائتھ غصے میں بھرا ڈیوڈ کی طرف بھاگا۔ ڈیوڈ نے اپنی چھڑی پھینکی اور اپنی جیب سے پتھر نکالا اور غلیل میں ڈال کر گولائتھ کی طرف داغ دیا۔ پتھر سیدھا فلسطینی دیو کے سر پر لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔'
یہ قصہ صدیوں پرانا ہے لیکن آج کل بھی مشرقِ وسطیٰ کی اس سرزمین پر ہر روز یہ کہانی دہرائی جاتی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اب کردار اور ان کے نام ذرا بدل گئے ہیں۔ فلسطین اب ہاتھوں میں پتھر اور غلیل سے لڑنے والا مظلوم ڈیوڈ ہے اور گولائتھ جو پچھلی کہانی میں فلسطین تھا اب جن نما اسرائیل بن گیا ہے جو ہر وقت خون کا پیاسا رہتا ہے۔
آج کی دنیا کے ڈیوڈ اور گولائتھ کی یہی کہانی ہے۔
No comments:
Post a Comment