Monday, July 19, 2010

Baba Bullay Shah - Ghaflat


May 2010(By ریحان احمد یوسفی)

بابا بلھے شاہ (1680 - 1757) پنجابی زبان کے مشہور شاعر ہیں ۔ وہ لوک شاعری کے کلاسیکل طرزِ کلام یعنی ’کافی‘ میں اشعار کہا کرتے تھے ۔ بلھے شاہ کی کافیاں صدیوں سے عوام میں مقبول رہی ہیں ۔ اس کا سبب ان کے کلام کی سادگی اور خوبصورتی ہی نہیں بلکہ اس میں پائے جانے والے حکیمانہ نکات اور انسانی نفسیات کی پیچیدہ گرہوں کا خوبصورت بیان بھی ہے ۔ اس کا ایک خوبصورت نمونہ ان کی مشہور کافی ’میرا رانجھن ہن کوئی ہور‘ کا یہ لافانی مقطع (آخری شعر) ہے :
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
(بلھے شاہ ہمیں مرنا نہیں ہے ، قبر میں کوئی اور پڑ ا ہے )

یہ حقیقت ہے کہ انسان کبھی اپنے آپ کو قبر میں پڑ ا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔ کیوں کہ ایسا صرف انسان کی موت کے بعد ہوتا ہے جب انسان کچھ دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ انسان زندگی بھر دوسروں ہی کو قبر میں جاتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ آخرکار ایک روز وہ خود بھی قبر میں جاپہنچتا ہے ۔ مگر انسان زندگی بھر اس طرح جیتا ہے جیسے کہ اسے مرنا ہی نہیں ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ قبر صرف دوسروں کے لیے بنی ہے ، اسے کبھی قبر کے گڑ ھے کو نہیں بھرنا۔

انسان کی یہ سوچ دو طرح کے نتائج پیدا کرتی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ غفلت کا شکار ہوکر ساری زندگی دنیا کی رونق اور اس کی فراخی کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور قبر کی وحشت اور تنگی کو بھول جاتا ہے ۔ وہ اپنے وقت، دولت اور صلاحیت کا تمام تر استعمال صرف دنیا کے فوائد کے لیے کرتا ہے ۔ وہ آخرت کے فائدوں اور نعمتوں کو بھولے رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ موت کا سفیر قبر کا بلاوا لیے اس کے دروازے پر آکھڑ ا ہوتا ہے ۔ اس وقت انسان کو ہوش آتا ہے ، مگر اب ہوش کا کیا فائدہ۔

اس سوچ کا دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان احتسابِغیر کی نفسیات میں جیتا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ قبر صرف دوسروں کے لیے ہے ۔ اس لیے احتساب بھی انھی کا ہونا چاہیے اور وہ خود ہر احتساب سے پاک ہے ۔ اس پر جب کرپشن کے الزام لگتے ہیں تو وہ چلا اٹھتا ہے کہ دوسروں کا احتساب کیوں نہیں ہورہا؟ اس کی غلطی اور زیادتی جب اس پر واضح کی جاتی ہے تو وہ دوسروں کو اصلاح کا درس دینا شروع ہوجاتا ہے ۔ جب اس کی کمزوری اس پر کھولی جاتی ہے تو وہ دوسروں کے عیوب گنوانے لگتا ہے ۔

دنیا پرستی اور احتساب غیر دونوں عادتیں قبر کو بھولنے کا لازمی نتیجہ ہیں ۔ ان میں سے احتساب غیر کی عادت کی اصلاح زیادہ مشکل کام ہے ۔ اس لیے کہ یہ کرنے والا درحقیقت ایک سیاسی سوچ کو اصول کے لبادے میں چھپادیتا ہے ۔ ایسا آدمی بظاہر اصول پسندی اور قانون ضابطے کی بات کر رہا ہوتا ہے ، مگر یہ محض اپنی بڑ ائی اور طاقت، اپنے مفادات اور بادشاہی کو قائم رکھنے کی ایک ناکام کوشش ہوتی ہے ۔ یہ اصول کے نام پر سب سے بڑ ی بے اصولی ہوتی ہے جو اس وقت بالکل کھل کر سامنے آ جاتی ہے جب کوئی طاقتور سامنے آکھڑ ا ہو یا جب اپنے کسی عزیز اور پیارے کا کوئی مسئلہ سامنے آجائے ۔ ایسے میں احتساب کی بات کرنے والوں کو قانون اور اصول سب بھول جاتے ہیں ۔ اور انھیں طرح طرح کی حکمتیں اور مصلحتیں یاد آنے لگتی ہیں ۔

افراد کی شخصیت کی کمزوریاں ڈھونڈنے والے خدائی فوجدار، سڑ ک پر لوگوں کو بلاوجہ روکنے والے سپاہی، دفتروں میں عام آدمی پر رشوت نہ دینے کے جرم میں جرمانہ کرنے والے کلرک، دفتروں میں تاخیر سے آنے والوں کی سرزنش کرنے والے افسر، بظاہر سب اصول کی بات کرتے ہیں ۔ مگر اصول کی بات صرف اُسے زیب دیتی ہے جس کا پیمانہ سب لوگوں کے لیے یکساں ہو۔ جو دوسروں کا احتساب کرنے سے قبل اپنا احتساب کر چکا ہو۔ جو دوسروں کو سبق پڑ ھانے سے قبل اپنے سارے سبق یاد کر چکا ہو۔ جس کا پیمانہ یکساں نہیں ، جس کو اپنا سبق یاد نہیں ، اس کا احتسابِ غیر خدا کے حضور اس کا اپنا احتساب شدید تر کر دے گا۔ کیونکہ قبر میں صرف دوسرے ہی نہیں جاتے ۔ ایک روز آدمی خود بھی قبر میں جاپہنچتا ہے

2 comments:

BillaG GoBillaG said...


Kalam Bulla Shah

Fayyaz Khan said...

This is abslutly different interpretation of poetery of Hazrat Bullay shah sb,Br Rehan try to do Tableege by quoting poetery of shah sb. I am not agaist what you said in your contents of interpretation. But shah sb was not mean that what you are saying by quoting his poetery. In fact, Shah sb was a high grade spritual personality and his soul was pure and pak from all Insani nufsani wishes and bad deeds, Indeed he was aware that he will be remembered for ever and stay live in heart of people and indeed he is live. plus "gisum ko mout hai rooh ko naheen' aure goore undir gism jata hai rooh naheen.There is a lot of which can be said in this regard but time and----- shahid kay terry dil may uter jai meri itni see baat.