Friday, February 27, 2009

Urdu Digest -Feb 2009


مستقبل کا روڈمیپ ۔ فروری ۲۰۰۹ء
مستقبل کی تعمیر میں ہمارا ماضی اور ہمارا حال ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ ہم اس حوالے سے خوش نصیبی اور بدقسمتی کے درمیان سفر کرتے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں معجزے بھی تخلیق ہوئے ہیں اور بڑے بڑے سانحات بھی ہماری تاریخ کا حصہ بنے ہیں۔ آج کے حالات جو ہر پہلو سے تکلیف دہ اور ہوشربا ہیں‘ وہ ہماری ماضی کی غلطیوں اور حال کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرتی‘ سیاسی اور اخلاقی رویوں کا تنقیدی جائزہ لے کر مستقبل کا ایک قابل عمل روڈمیپ تیار کرنا ہو گا جو قوم کو ذہنی اور فکری زوال سے باہر لا سکے اور اس کی صلاحیتوں اور آرزوؤں کو تعمیروطن میں لگا سکے۔ گزشتہ ساٹھ باسٹھ برسوں میں ہمارے قومی وجود کے اندر شکست و ریخت کا جو عمل جاری رہا ہے‘ اس کے باعث ہمیں چند مہلک بیماریوں نے آ لیا ہے اور ان کے مؤثر تدارک اور علاج کے بغیر ہمارے لیے سنگین چیلنجوں کا مقابلہ دشوار تر ہو جائے گا۔ ہم یہاں روڈمیپ کے چند بنیادی خطوط تجویز کرتے ہیں۔
۔ ایک محفوظ مستقبل کی تعمیر کے لیے ہمیں سب سے پہلے جمہوری اور سیاسی کلچر کو فروغ دینا ہو گا جو مسائل اور تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنے اور نظم حکومت عوام کی رائے کے مطابق چلانے کی تربیت دیتا ہے۔ جمہوری مزاج میں شائستگی‘ رواداری اور تحمل و برداشت کے اوصاف گندھے ہوتے ہیں جو معاشرے میں توازن قائم رکھنے اور اجتماعی معاملات کی عمدہ انجام دہی میں بہت مددگار بنتے ہیں۔ جمہوری ذہن کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں اس امر کا بطورِ خاص اہتمام کرنا ہو گا کہ طلبہ اور طالبات میں اختلاف رائے کا احترام پیدا ہو اور انہیں مشورے کے ساتھ اجتماعی امور طے کرنے کی عملی تربیت ملتی رہے۔ یہی تہذیبی رویہ ہماری سیاسی‘ سماجی اور دینی جماعتوں میں رائج ہونا چاہیے تاکہ جمہوری نظام کی بنیادیں مضبوط ہوں اور معاشرہ تباہ کن محاذ آرائی اور تنگ نظری سے محفوظ رہے۔ ۔ ہمیں اپنے ماضی کے ہولناک اثرات سے چھٹکارا پانے کے لیے فوری طور پر چند عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ سیاسی کلچر کی جڑیں کمزور ہونے کے باعث فوجی قیادت کو اقتدار پر قابض ہونے کے بار بار مواقع ملتے رہے جن سے ہمارا پورا ریاستی ڈھانچہ درہم برہم ہو کے رہ گیا‘ قومی ادارے مفلوج ہوئے اور عوام پس منظر میں چلے گئے۔ اب ہمیں جنرل پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر انہیں آئین کے مطابق عبرت ناک سزا دینے کا عمل تیزی سے شروع کر دینا چاہیے۔ ماضی میں فوجی آمر بندوق کی طاقت سے آئین توڑنے اور ملکی وقار اور عوامی حاکمیت کو روندنے کی روایت آنے والوں کو منتقل کرتے رہے۔ فوج ان کی خواہشات کا آلۂ کار بنی رہی اور عوام کے اندر غیرمقبول ہوتی گئی۔ اس خطرناک رجحان کے مؤثر اور یقینی روک تھام کے لیے فوج کو اس اعلیٰ سطحی قیادت سے الگ کر کے مارشل لا نافذ کرنے والے ٹولے کا بہت کڑا احتساب کرنا ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف نے دوبار آئین پر کاری ضرب لگائی‘ پاکستان کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا اور ڈالروں کے لالچ میں اسے دہشت گردی کی آماجگاہ بنا دیا۔ انہیں کراموویل کی طرح عبرت کا نشان بنا دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی طالع آزما جرنیل کو زمامِ اقتدار سنبھالنے کا خیال ہی نہ آئے۔
۔ ماضی کی دوسری بڑی لعنت سیاسی اقتدار کی اذیت ناک جنگ ہے جس کا خاتمہ ایک مستحکم مستقبل کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اس جنگ میں سب سے بڑا کردار سول اور ملٹری بیوروکریسی نے ادا کیا اور سیاسی لیڈروں کی جاہ طلبی نے اسے ایندھن فراہم کیا۔ پاکستان مسلم لیگ جو آل انڈیا مسلم لیگ کی وارث بنی‘ وہ اعلیٰ درجے کی سیاسی اور اخلاقی تربیت سے محروم ہونے کے باعث حکومت میں آنے کے ابتدائی مہینوں ہی میں دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور اس کے اندر سے راتوںرات ایک سیاسی جماعت قائم ہو گئی‘ جو شاطر بیوروکریسی کے اشاروں پر رقص کرتی رہی۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ قیادت ایک فطری ارتقا کے طور پر آگے آنے کے بجائے حادثاتی طور پر مسلط ہوتی رہی۔ بدقسمتی سے سیاسی کارکن ہر مرحلے پر نظرانداز کیے جاتے رہے اور خوشامدی ٹولے خاندانی قیادتوں کے گرد منڈلاتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی جماعتوں کا عوام سے رشتہ کمزور پڑتا گیا اور وہ بنیادی مسائل حل کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہیں۔ جنرل ضیائ الحق کی حکومت کے خاتمے پر ملک میں دو سیاسی جماعتیں اُبھر کر سامنے آئیں‘ مگر وہ ایک دوسرے کا احترام کرنے کے بجائے اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں اور قوم کے دس سال خطرناک سیاسی محاذ آرائی کی نذر ہو گئے اور ملک پر ایک بار پھر فوجی آمر نے قبضہ کر لیا۔ اس دردناک انجام سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے مئی ۶۰۰۲ئ میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور یہ طے پایا کہ وہ آئندہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے اور ایک باوقار اور صحت مند اپوزیشن کی طرح ڈالیں گے۔ ایک مضبوط مستقبل کے لیے میثاق جمہوریت کے الفاظ و معانی پر عمل درآمد انتہائی ناگزیر ہے۔ پیپلز پارٹی‘ جو اس وقت حکومت میں ہے‘ اس کی قیادت پر لازم ہے کہ وہ اپنی حد سے بڑھی ہوئی خواہشات پر قابو رکھے اور عوامی جذبات کو سب سے زیادہ اہمیت دے۔ ہم آج ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں مخلصانہ ٹھوس اقدامات کے ذریعے اعلیٰ روایات کی ایک نئی دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے‘ مگر عام تاثر یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اپنے آپ کو بعض ایسی مجبوریوں کے شکنجے میں کس لیا ہے یا کوشش ناتمام کے ایک ایسے سحر میں گرفتار ہو چکے ہیں کہ قومی زندگی میں طوفان اور بحران اُمڈے چلے آ رہے ہیں جو خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام ریاست کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔
۔
http://www.altafhasanqureshee.com/hkkh/feb2009.php

To read more pl go to the link above.....Thanks

 

1 comment:

Zubair (BillaG) Saleem said...

انتخابات کے بعد ۹/ مارچ ۲۰۰۸ئ کو معاہدہ بھوربن پر جناب آصف زرداری اور میاںمحمدنوازشریف نے دستخط کیے جس میں طے پایا کہ پارلیمان کی قرارداد کے ذریعے تمام برطرف شدہ جج بحال کر دیے جائیں گے‘ مگر ایک ماہ گزرنے کے بعد جناب آصف زرداری یہ کہہ کر تحریری عہدنامے سے مکر گئے کہ معاہدہ قرآن و حدیث کی طرح مقدس نہیں ہوتا۔ اپنی نوعیت کے اس بدترین انحراف سے جہاں ایک طرف مخلوط حکومت کی بنیادیں ہل گئیں‘