آذادی
وہ شاہین اور تھا، جس کا بسیرا تھا پہاڑوں کی چٹانوں میں
آج تو بکتا ھے حنـّوط شدا’ ، سجی سجائ دوکانوں میں
اسیر آذادی ، سوچتا ھوں
آج تو آذادی بھی قید ھے ، انّا کے زنداان خانوں میں
وہ نرگس اور تھی جو اپنی بے نوری پہ روتی تھی
اب تو ھر اک ھے دیداور ، وطن کے چمنستانوں میں
آ اقبال ، اٹھہ قبر سے ، دیکھہ ذرا
ٹھگ ، قاتل ، لوٹیرے ھیں تیری قوم کے پاسبانوں میں
شکاری سے شیر ُ شیر سے شکاری بن جاتےھیں
لگا کے بکرا عوام کا
کھیل رھے ھیں کھالوں میں کچھ بیٹھے مچانوں میں
ذرا نم ھو تو یہ مٹی بھی زرخیز ھے ساقی
اس نم کو لےکرکیاکریں،جب غم ہی بھراھوآج کے پیمانوں میں
ملاں کی آذاں اور
، مجاہد کی آذاں اور
جبتک لہو ملے نہ تیغ بہادر کا ،
اثر آتا نہیں بے وقت کی آذانوں میں
نھیں چاہیے زندگی شمع کی صورت یا رب
شامل کر دے مجھے اس دیس کے پروانوں میں
بلاجی
No comments:
Post a Comment